فدا علی حلیمی[1]*
ایک معاشرے کےانحراف اور ہلاکت کے بہت سارے اسباب ہوسکتے ہیں ان میں سے ایک دشمنوں کی طرف سے پیدا کیے گئے شبہات اور اٹھائے گئے اعتراضات کا بروقت جواب نہ دینا ہے۔ معاشرے کے بہت سارے لوگ دینی ،مذہبی اور تاریخی مسائل کو گہرائی کے ساتھ نہیں جانتے لہذا بروقت جواب نہ دینے کی وجہ سے وہ لوگ ان شیطانی اور انسان دشمن شبہات اور اعتراضات کے رو میں بہہ جاتے ہیں اور انحراف کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انہیں شبہات ،اعتراضات اور تاریخ کی تحریفات میں سے ایک یزید بن معاویہ بے جرم خطا پیش کرنا بھی ہے اور اسکامقصد امام حسین علیہ السلام کے الہی قیام اور اس قیام کے آفاقی پیغامات اور اس کی حفاظت اور ترویج کے سلسلے میں عزاداری کو مشکوک بنانا ہے۔لہذا ان انحرافات کے پیش نظر کچھ تاریخی حقائق کو ہم نے مختصر اور مستندطریقے سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ حقیقت کی تلاش کرنے والے حقیقت تک پہنچ جائیں۔
ہم اپنی بات کا آغاز اس سوال سے کرتے ہیں کہ یزید کی حکومت باطل ہونے کی کیا دلیل ہے؟۔ جوابا عرض ہے کہ یزید کی حکومت باطل تھی اوراس حوالے سے ہم درج ذیل مسلّم دلائل پیش کرسکتے ہیں.
ا۔تاریخ میں یہ بات مسلمہ ہے کہ صلح امام حسنؑ و معاویہ کے ضمن میں یہ طے ہوا تھا کہ معاویہ کو اپنے بعد اپنا ولی عہد اور خلیفہ مقررکرنے کا کو ئی حق نہ ہوگا ۔اس سے ظاہر ہے کہ معاویہ کا یزید کو اپنا ولی عہد مقرر کرنا، اصول شریعت اور آئین اسلام کے سراسرخلاف ہے۔معاویہ کو اس تقررکا قطعا ًکو ئی حق حاصل نہیں تھا .[2] مولوی شاہ محمد سلیمان پھلواروی نے بھی اسی طرح لکھا ہےیہ خلافت غیر آئینی تھی اور کسی طرح بھی درست نہ تھی ۔[3]
۲۔ظاہرہے کہ یزید کی خلافت ،خلافت معاویہ کی ہی ایک شاخ ہے۔اہل سنت کی اس مسلم الثبوت حدیث کہ الخلافۃ بعدی ثلاثون سنۃً ثمّ یکون ملکٌ عضوض میرے بعد خلافت صرف تیس برس تک ہوگی اس کے بعد کاٹنے والی بادشاہی ہوگی .[4] اس حدیث سے یہ معلو م ہوتا ہے کہ معاویہ کی خلافت جو یزید کی خلافت کی بنیاد تھی وہ بھی نامشروع تھی ۔
۳۔ہرچیز کا ایک میز ان ومعیار ہوتا ہے ۔ آخر خلیفہ ٔ رسولؐ ہونے کابھی تو کوئی معیار ہوناچاہیے۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ جو بھی دعوائے خلافت کرے اور لا ٹھی کے زور سے تخت خلافت پر متمکن ہو جائے ،وہ خلیفہ رسول ؐبن جائے !!؟ اگر چہ شراب خوار،زنا کار، تارک صوم وصلاۃ اور فاسق وفاجر بلکہ عقیدۃً کافر اور اسلام کا غدار بھی! ؟ اگر کوئی تعصب وعناد کی عینک اتار کر اس کی تاریخ کا ذرا مطالعہ کرے تو معلوم ہو جائے گا کہ یزید اصلا ًدائرہ ٔاسلام سے بھی باہر تھا ۔
یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ یزید کے کافر ہونے کی کیا دلیل ہے؟۔ تو یہاں ہم یزید کے چند کافرانہ عقائد کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کے بعد اس سوال کا جواب از خود مل جائے گا۔ یزید کہتاہے:
لیتَ اَشْیاخِی بِبَدرٍ شَہِدُوا
جَزَعَ الخَزْرَ جِ مِنْ وَقْعِ الَاسَل
قد قَتَلْنَا القِرْمَ مِنْ سَادَاتِکُم
وَعَدََلْنَا مَیلَ بَدْرٍ فَاعْتَدَل
فَاَھَلُّو اوَاسْتَھَلُّوا فَرَحاً
ثُمَّ قَالُوا یا یزیدُ لَا تَشَلْ
لَسْتُ مِنْ خَنْدَفٍ اِنْ لَمْ اَنْتَقِمْ
مِنْ بَنِی اَحْمَدَمَاکانَ فَعَلَ
لَعِبَتْ بَنُو ھاشِمٍ بِالمُلْکِ فَلَا
خَبْرٌ جَاء وَلاَوَحْیٌْ نَزلَ.[5]
ترجمہ: کا ش میرے بدر والے وہ بزرگ آج موجود ہوتے جنہوں نے تیر کھا کر بنی خزرج کی آہ و بکا کو سنا تھا ۔ ہم نے تمہارے سرداروںمیں سے بڑے سردارکو قتل کرکے بدر والے نقصان کو پوراکردیا ۔ اس وقت خوشی کے مارے ضررو بآواز بلند پکار کر کہتے کہ اے یزید !تیرے ہاتھ شل نہ ہو ں۔ میں اولاد خندف سے نہیں ہو ں اگر اولاد احمد سے ان کے کئے کا بدلہ نہ لوں ۔ بنی ہاشم نے حکومت کے لیے ایک ڈھونگ رچایا تھاورنہ نہ تو کو ئی خبر آسمانی آئی تھی اور نہ ہی کو ئی وحی نازل ہو ئی تھی ۔
اسی طرح یزید شراب کو حلال سمجھتا تھا جیسا کہ اپنے باپ کے ایک خط کے جواب میں یوں لکھتاہے ۔
فَاِنْ حُرِّمَتْ یَوماً عَلیٰ دِینِ اَحمَدَ
فَخُذْ ھَا علیٰ دیِنِ مَسِیحِ بنِ مریم
ماقالَ رَبُّکَ وَیْلٌ لِِلَّذِی شَرِبُوا
بَلْ قالَ رَبُّکَ وَیْلٌ لِلمُصَلِّین
ترجمہ: اگر دین احمد میں شراب نوشی حرام ہے تو پھر مسیح بن مریم کے دین پر پی لو تمہارے خدا نے شرابخواروں کے متعلق ویل للشاربین نہیں کہا ہے ۔ البتہ نماز گزاروں کے متعلق ویل کہا ہے ۔
ان اشعا رسے واضح ہو جاتا ہے کہ یزید صرف یہی نہیں کہ عملًا ایک انتہائی بدکردار انسان تھا بلکہ وہ نظریہ کے اعتبار سے بھی احکام شریعت مقدسہ کا مذاق اڑاتا تھا ۔[6]
یزید کے کفر کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ وہ اپنی محرم عورتوں سے بھی زنا کرتاتھا ۔عبدا ﷲبن حنظلہ بیان کرتے ہیں: وَاﷲِ ماخَرَجْنَا عَلیٰ یزیدٍ حَتّیٰ خِفْنَا اَنْ نُرْمیٰ بِالْحِجَارَۃِ مِنْ السَّمَاء اِنَّ رَجُلًا یَنکَحُ اُمَّھَاتٍ وَاللبَنَاتِ وَالَا خَوَات وَیَشْرَبُ الخَمرَ وَیَدَعُ الصَّلٰوۃَ۔
ترجمہ: خدا کی قسم ہم نے اس وقت تک یزید کے خلاف آواز بلندنہیں کی جب تک ہمیں یہ خوف دامن گیر نہیں ہو گیا کہ کہیں ہم پر آسمان سے پتھر نہ برسیں کیونکہ وہ ایسا انسان تھا جو اپنی سوتیلی مائوں، اپنی بیٹیوں اور بہنوں سے بھی زناکرتا تھا اور علانیہ شراب پیتا تھا اور نماز ترک کر تا تھا ۔[7]
یہ یزید ہی تھا جس نےمدینہ النبی کی ہتک وحرمت اور مسلمانوں کا قتل عام کیا ۔ تاریخ میں ایک واقعہ ’’واقعہ حرہ ،،کے نام سے معروف ہے ۔ حرہ‘‘مدینہ الرسولؐ کے مشرق میں ایک مقام کا نام ہے جہاں یزیدی فوج کے سپہ سالار مسلم بن عقبہ اور اہل مدینہ میں سخت جنگ ہوئی اور اہل مدینہ کو شکست ہوئی۔ مسلم بن عقبہ نے اتنے ظلم ڈھائے کہ قلم اور زبان بیان سے عاجزہے ۔ مورخین کے نقل کے مطابق مالی نقصان کے علاوہ سات سو(۷۰۰)صحابہ رسولؐ اور دس ہزار عوام شہید کئے گئے ۔کم وبیش تین سو(۳۰۰)کنواری لڑکیوں کی عصمت دری کی گئی ۔مسجدنبوی کی اس طرح سے ہتک حرمت ہوئی کہ اس میں خچر اور گدھے باندھے گئے ۔تین دن تک اذان ونماز نہ ہوئی ۔[8](مزید معلومات کیلئے کتاب,,تحقیق مزید فی کردار یزید،،،تالیف سنی عالم دین شفقات احمد صاحب نقشبندی سے رجوع فرمائیں)۔
یزید کے حوالے سے مذہب اہل بیتؑ کی رائے بہت واضح ہے ۔ یہاں ہم اپنے قاری کے لیے یزید کے حوالے سے مذہب اہل سنت کی رائے کی طرف اشارہ کرنا چاہیں گے اور اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں کہ یزید کے حوالے سے مذہب اہل سنت کی رائے کیا ہے؟۔
اہل سنت کے بڑے بڑے علما وائمہ نے یزید کو نہ صرف فاسق وفاجر بلکہ کافر لکھاہے ، جن میں چند اہم نام اور ان کی یزید سے متعلق آراء پیش خدمت ہیں:
ا ۔ ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :… ایک قول یہ ہے کہ وہ کافر ہے کیونکہ اس سے ایسےافعال واقوال نقل ہوئے ہیں جو اس کے کفر پر دلالت کرتے ہیں جیسے شراب کوحلال سمجھنا وغیر ہ اور شاید انہی وجوہ کی بنا پر امام احمد بن حنبل نے اس کے کفر کا فتویٰ دیا ہے۔[9]
۲۔شاہ محمدسلیمان پھلواروی لکھتے ہیں : اکثر اکابرین ومحدثین وبزرگان دین مثلاً امام احمد بن حنبل،علا مہ ابن جوزی ، جلال الدین سیوطی ،علامہ سعد الدین تفتازانی اور سید آلوسی وغیرھم رحمھم اﷲ تعالی، یزید کے کفر کے قائل ہیں اور اسے سرے سے مسلمان ہی نہیں جانتے ہیں۔[10]
۳۔ سعدالدین تفتازانی لکھتے ہیں: ہم یزید پر لعنت کرنے کے جواز بلکہ اس کے بے دین وبے ایمان ہونے پر کسی قسم کا توقف اور شک وشبہ نہیں کرتے ۔اس پر اور اس کے اعوان وانصار پر خدا کی لعنت ہو ۔[11]
۴۔ ابن جوزی نے یزید کے کفر کے بارے میں اس پر لعنت کے جواز میں ایک کتاب بنام الرّد علی المتعصّبِ العَنِید فی جواز اللعن علی یزید لکھی ہے۔
۵۔سید آلوسی حنفی اپنی مشہور تفسیر میں لکھتا ہے ۔[12] میرا گمان غالب یہی ہے کہ وہ خبیث ہرگز مسلمان اور مصدِّق رسالت نہیں تھا۔
۶۔قاضی شہاب الدین لکھتے ہیں : یزید کے بارے میں یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ اس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو بوجہ قتل اہل بیتؑ اذیت پہنچائی ہے اور یہ بات موجب لعنت ہے۔خدا رحمت کرے ان لوگوں پر جو یزید پر لعنت جائز سمجھتے ہیں ۔[13]
۷۔ علا مہ ذہبی شافعی لکھتے ہیں : یزید پکا دشمن اہل بیتؑ اور سخت بدخو تھا،وہ شراب پیتا تھا اور گناہ کا ارتکاب کرتا تھا ۔[14]
۸۔ علامہ جلاالدین سیوطی لکھتے ہیں: [15]خداوند عالم حسین ؑ کے قاتل، ابن زیاد اور یزید پر لعنت کرے ۔
۹۔سبط ابن جوزی نے بھی اپنی کتاب تذکرۃ خواص الا مۃ میں یزید کے کفر اور اس پر لعنت کاجواز ثابت کیا ہے ۔
۱۰۔مولانا محمد فرنگی محلی حنفی نے بڑی تفصیل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ ’’ یزید اور بنی حکم کی تمام اولاد پیغمبر اسلام ؐ کی زبانی ملعون ہے.[16]
۱۱۔ علامہ وحید الزمان اہل حدیث لکھتے ہیں: ہم تو یزید کو مع اس کے معاونین جیسے شمر لعین ، ابن زیاد ، عمربن سعد ، خولی، سنان وغیرھم کو ملعون اور مردود اور اشقی الخلق والخلیقہ جانتے ہیں ۔اَلف الفَ (ہزار ہزار)لعنت یزید اور الف الف لعنت یزید کے طرفدار وں اور حامیوں اور تعریف کرنے والوں پر جو اس کو خلیفہ یا اولوالامر میں سے سمجھتے ہیں ۔[17]
ان حقائق پر سرسری نگاہ ڈالنے سے آسانی کے ساتھ یہ اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ ان حالات میں یزید کسی طرح بھی خلافت نبویہ کا مستحق نہ تھا۔
۱۲۔شیخ احمد سرہندی حنفی: یزید بدبخت ،اصحاب میں سے نہیں تھا اس کی بد بختی میں کیا کلام ہے ۔ جو کارہائے بد اس نے کئے ہیں کسی کافر فرنگی نے بھی نہیں کئے ۔[18]
۱۳۔قاضی ثناء اﷲ پانی پتی حنفی: ثُمَّ کَفَرَ یزیدُ وَمَن مَعَہُ بِمَااَنْعَمَ اﷲُ عَلَیھِم وَانْتَصِبُوابِعَدَاوَۃِ آلِ النَّبِی وِقَتَلُوا حُسَیناً رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ ظُلماً وَکَفَرَ یزیدُ بِدِیْنِ مُحَمَّدٍصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم۔[19]
پھر یزید اور اس کے ساتھیوں نے اﷲ کی نعمتوں کی ناشکری کی اور اہل بیتؑ کی دشمنی کا جھنڈا انھوں نے بلند کیا آخر حضرت حسین کو ظلماً شہید کیا اور یزید نے دین محمدی کا ہی انکار کردیا ۔
۱۴۔ مولانااحمد رضا بریلوی حنفی : ’’یزید کو اگر کوئی کافر کہے تو منع نہیں کرینگے ۔[20]‘
۱۵۔ صدرالشریعہ حنفی مولاناامجد علی: یزید پلید فاسق وفاجر ،مرتکب کبائر تھا آج کل جو بعض گمراہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں ان کے مقابلہ سے کیانسبت ۔وہ بھی شہزادے، یہ بھی شہزادے۔ایسا بکنے والا مردود، خارجی،ناصبی اور مستحق جہنم ہے ۔[21]
۱۶۔ناب صدیق حسن بھوپالی اہل حدیث: وی شارب خمر او زانی وفاسق ومستحل محارم بود۔[22] یعنی یزید شراب پینے والا، زناکار،فاسق اور محرمات کو حلال جاننے والا تھا ۔
۱۷۔ابن خلدون: لمَّا ظَھَرَ فِسْقُ یزید عِنْدَ الْکَافَۃِ مِن اَھلِ عَصرِ ہِ بَعَثَ شِیْعَۃُاَھْلِ بَیتٍ بِالکُوفَہ لِلحسینِ۔ [23]
جب یزید کے ہم عصر تمام لوگوں پر اس کا فسق وفجور غالب ہو گیا تو اہل بیت کے شیعہ کوفہ سے امام حسین ؑکی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے ۔
۱۸۔حضرت امام احمد بن حنبل: آپ کے بیٹے نے یزید پر لعنت کرنے کے متعلق مسئلہ پوچھا، آپ کا جواب یہ ہے: کیف لا یلعن من لعن اﷲ فی کتابہ : فقال عبداﷲ قد قرأ تُ کتابَ اﷲِ عزّ وجلّ فَلَمْ اَجِدْ لَعْنَ یزید فَقَالَ الاما مُ: اِنَّ اﷲَ تعالیٰ یقولُ : فَھَلْ عَسَیْتُم اَنْ تَوَلَّیتُم اَنْ تُفْسِدُوا فِی الَا رْضِ وَتقطّعوا ارحامکم اولئک الذین لعنھم اﷲ ، ایّ فساد قطیعۃ اشد مما فعلہ یزید۔ ترجمہ: امام احمد نے کہا بیٹے! اس شخص پر کیو ں نہ لعنت کی جا ئے جس پر اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میںلعنت کی ہے۔ آپ کے بیٹے نے عرض کی اباجان قرآن پاک تو میں نے بھی پڑھا ہے لیکن مجھے تو قرآن میں کہیں یزید پر لعنت کا ذکر نہیں ملا ۔ امام احمد نے کہا :بیٹے فرمان خداوندی ہے۔ پس کیاعنقریب اگر تمہیں حکومت ملے تو تم زمین میں فساد پھیلا ؤ گے اور اپنے رشتے کاٹو گے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اﷲ نے لعنت کی ہے۔ پس جو کچھ یزید نے کیا ہے اس سے بڑھ کر کونسا فساد ہو گا۔ [24]
۱۹۔محمدبن محمد الحنفی شارح مسلّم الثبوت: اِنَّ یزید کانَ مِنْ اَخْبَثِ النَّاسِ وکانَ بَعِیداً بِمَراحِلَ مِنْ الِامَامَۃِ بَلْ نَشُکُ فِی اِیْمَانِہِ خَزَلَہُ اﷲُ۔[25] ترجمہ: یقینا یزید تمام انسانوں میں سے خبیث ترین انسان تھا اور وہ امامت وخلافت کی اہلیت سے بہت دور تھا بلکہ ہمیں تو اس کے ایمان میں بھی شک ہے اﷲ تعالیٰ اسے ذلیل کرے ۔
۲۰۔ شاہ عبد العزیز محد ث دہلوی حنفی لکھتا ہے: جب یزید پلید قتل امام وہتک حرمت اہل بیت ؑ سے فارغ ہو ا تو اس غرور سے اس کی شقاوت اور قساوت اور زیادہ ہوئی۔ چنانچہ لواطت اور زنا ،بھا ئی کی بہن سے شادی اور سود وغیرہ منہیات کو اس نے اعلانیہ رواج دیا۔ جس دن اس پلید کے حکم سے کعبہ کی بے حرمتی کی گئی اسی دن حمص میں وہ واصل جہنم ہو ا۔[26]
22۔ مہتمم دارالعلوم دیوبند محمد طیب:اپنی کتاب شہید کربلا میں لکھتے ہیں: بہر حال یزید کے فسق وفجور پر صحابہ کرام سب کے سب ہی متفق ہیں پھرآئمہ مجتہدین بھی متفق ہیں . ان کے بعد راسخین ،محدثین،فقہانے فسق یزید پر علماء سلف کا اتفاق نقل کیا ہے۔[27]
23۔مولانا مودودی: علماء اہل سنت میں سے جو لوگ (یزید پر)جواز لعنت کے قائل ہیں ان میں ابن جوزی،قاضی ابو یعلی،علامہ تفتازانی اور علامہ سیوطی نمایاں ہیں۔[28]
میں نے تو یوں ہی خاک پہ پھیری تھی انگلیاں
دیکھا جو غور سے تو تیری تصویر بن گئی
پھنسا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
خود آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
یہاں ہم اپنے قاری کے لیے ایک اور اہم سوال کا جواب پیش کرتے ہیں کہ بالاخر قاتلان امام حسینؑ کا مذہب کیا تھا؟۔ کیونکہ اس حوالے سے کئی ایک شبہات ایجاد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ قاتلان ِ حسین کا مذہب ‘‘ مطبوعہ امامیہ مشن لکھنؤ، ’’ میں لکھاہے ، ہم صرف ایک خلاصہ ذکر کریں گے۔
قاتلان امامؑ کا کفر والحاد:
۱۔امام حسین ؑ کا اصل قاتل یزید بن معاویہ تھا، جس کا کفر والحاد اورلا دینیت ثابت ہے ۔
۲۔دوسرا شخص جسے قاتل کہا جاسکتا ہے وہ ہے ابن مرجانہ جو یزید کے ساتھ یک جان و دوقالب کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس شخص کا کفر والحاداور احکام رسولؐ سے روگردانی طشت ازبام تھی ۔اور کو فہ کے عام افراد بھی اس سے خوب واقف تھے ۔چنانچہ جناب ہانی بن عروہ نے ایک خاص موقع پر جناب مسلم بن عقیل سے کہا تھا :’’ خدا کی قسم آپ یقین جانئے کہ اگر آپ اس کو قتل کر ڈالتے تو یہ کسی مسلمان کاقتل نہ ہو تا بلکہ ایک فاسق وفاجر اور کافر و غدار کا قتل ہوتا ۔[29] تیسرا شخص جو قتل حسین کا براہ راست ذمہ دار ہے وہ عمربن سعد بن ابی وقاص تھا ۔اس کے اسلام کی حقیقت ان اشعار سے ظاہرہوتی ہے جو اس نے ایک موقع پر کہے تھے:
یقولون اِنَّ اﷲَ خالقُ جَنَّۃٍ
ونارٍ تعذیب وغلّ یدین
فاِنْ صدقوا فیما یقولون اِنّنی
اَتُوبُ اِلَی الرَّ حْمٰنِ مِنْ سَنَتَین
واِنْ کذِ بوا فز نا بدنیا عظیمۃٍ
وملکٍ عقیمٍ دائمِ الحجلَین
ترجمہ: لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے کوئی جنت خلق کی ہے اور آگ اور عذاب اور ہاتھوں کی ہتھکڑیاں۔اچھا تو اگر یہ لوگ سچے ہیں ان باتوں کے کہنے میں تو کوئی حرج نہیں۔ میں دوہی سال کے اندر اس گناہ سے توبہ کر لوںگااور اگر یہ لوگ غلط کہتے ہیں اور جنت ودوزخ کی کوئی حقیقت نہیں تو پھر کیا ہے ؟پھر تو ہم ایک عظیم دنیا اور ایسے ملک کے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جس کی نعمتیں باقی رہنے والی ہیں ۔[30]
ان اشعار میں صریحی طور پر عقیدہ معاد اور جنت ودوزخ کا مذاق اڑایا گیا ہے ۔ جب حکام اور رؤسا کا یہ عالم تھاتو دوسروں کا کیا پوچھنا؟ دیگر شواہد پیش کر نے سے پہلے دو بنیادی چیزوں کو ذہن نشین کر نے کی ضرورت ہے۔
۱۔امام حسین (ع) کے قتل کی بنیاد کیاتھی ؟
۲۔جس بنیاد پر اس سنگین قتل کا ارتکاب کیا گیا اس کا حکم کس مذہب کے اصول وتعلیمات سے ماخوذ ہے ؟
ہم چند مزید تاریخی شواہد قاری کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں:
اگر چہ مذکورہ بالا حقا ئق میں غور وفکر اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ قاتلان امام حسین شیعہ نہ تھے بلکہ سنی تھے تاہم یہاںمزید تاریخی شواہد وقرائن درج کرتے ہیں
الف۔ جب جناب مسلم نے کو فہ میں مختلف عمائدین کو امام حسینؑ کا پیغام پہنچانا شروع کیا تو عبدﷲ بن مسلم بن سعید خضرمی، لیف بنی امیہ،عمارہ بن عُقبہ اور عمربن سعد ابن ابی وقاص نے یزید کو خط لکھا۔ اس خط کو دیکھ کر یزید نے ابن زیاد کے نام جو پیغام لکھا اس کی عبارت قابل غور ہے: اما بعد! فاِنہُ کتب اِلیّ شِیْعَۃٌ من اَہلِ کوفہ یُخْبِرُوننیَ اِنَّ ابنَ عقیل بالکوفہ یَجْمَعُ الْجُمُوعَ لِشَقِّ عَصَاالْمُسلِمِینَ فَسِرْ حِیْنَ تَقْرَئُ کِتَابِی ھَذا حَتّیٰ تَاْتِی الکوفہ فتطلب ابن عقیل طلبَ الخَزْرَۃِ حَتیٰ تثْقفہ فتوثقہ او تقتلہ او تنفیہ والسلام۔ ترجمہ: میری طرف میرے شیعوں نے جو کہ کوفہ کے رہنے والے ہیں یہ لکھا ہے کہ ابن عقیل کوفہ میں لوگوں کو جمع کرکے مسلمانوں کی موجودہ بنی بنائی بات کو بگاڑ نا چاہتے ہیں ۔لہٰذا فوراً وہاں جاو اور مسلم پر قابو پاکر اس طرح سزادو کہ اسے قید خانہ میں ڈال دو یاقتل کردو ،یا شہر بدر کردو۔[31]
ب۔ فرزند رسولؐ کے کربلا پہنچنے کے بعد ابن زیاد کی طرف سے یہ خط آتا ہے: اَمّا بعدُ! فحــل بین الحسینِؑ واصحابِہِ وبینَ المائِ ولا یَذُوقُوا مِنْہُ قَــطْرَۃً کَمَا صنع بالرقی الزکی المظلوم امیر المئومنین عثمان بن عفان …. ترجمہ: حسین ؑ اور اصحاب حسین ؑ کے سامنے پانی کی طرف سے رکاوٹ بن جا (یعنی پانی بند کر دو) اور ان کو ایک قطرہ چکھنے کو بھی نہ ملنے پائے جیسا کہ ……[32] خلیفہ سوم کی مظلومیت کا مرثیہ خوان کون ہو سکتا ہے ؟۔ نویں ماہ محرم کو عزرہ بن قیس حمسی (جو فوج مخالف میں سے تھا)اور جناب زہیر بن قین [33]کے درمیان جوگفتگو ہوئی ملاحظہ فرمائیں: یا زُُہَیرُ مَا کُنْتَ عِنْدَ نَا مِنْ شِیْعَۃِ اَھْلِ الْبَیْتِ ؑ اِنَّمَا کُنْتَ عُثْمَانیا. اے زہیر! تم تو ہماری دانست میں اس خاندان کے شیعوں میں سے نہ تھے بلکہ عثمانی مذہب رکھتے تھے ۔
د۔ جناب نافع بن ہلال جملی جب جنگ کے لئے نکلے تو وہ یوں رجز پڑھ رہے تھے
اناالجَمَلِی اَنَا عَلٰی دِینِ عَلِیّؑ یعنی میں قبیلہ جملی سے ہوں اورعلی ؑ کے مذہب پر ہوں۔ایک اور شخص فوج یزید سے مقابلہ پر نکلا جس کا نام مزاحم بن حریث تھا ،اس نے کہا: اَنَا عَلٰی دِیْنِ عُثْمَانَ یعنی میں تو عثمان کے دین پر ہوں ۔
ھ۔حرم رسول ؑ اسیر کرکے دربار ابن زیاد میں لائے گئے ۔ ابن زیاد نے اس موقع پر مجمع عام میں برسر منبر جو تقریر کی اس کا ابتدائی حصہ یہ ہے: الحمد لِلّہِ الذّیِ اَظْھَرَ الْحَقَّ وَاَھْلَہُ وَنَصَرَ اَمِیرَالْمُئْومِنِیْنَ یزیدَ بنَ معاویہ وحَزْبَہُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَقَتَلَ الْحُسَیْنَ بنَ عَلِیّ ؑوَشِیعَتَہُ [34]۔ ترجمہ: خدا کا شکر ہے جس نے حق اور اہل حق کو فتح عنایت کی اور خلیفہ یزید بن معاویہ اور ان کے گروہ کی مدد کی…… اورحسین ؑبن علی ؑ اور اس کے شیعوں کو قتل کیا ۔
و۔ ابن سعد ملعون نے جنگ کا آغاز کرتے قت کہا: اِشْھَدُوا عِنْدَ الَامِیرِاَنِّی اَوَّلُ مَنْ رَمیٰ ۔ ترجمہ: تم گواہ رہنا کہ وہ شخص جس نے سب سے پہلے تیرچلایا، وہ میں ہوں ۔[35]
خلا صہ جن لوگوں کا یزید امام تھا وہ امام حسین ؑ کے قاتل تھے ۔
امت مسلمہ کی بی شعوری اور بی بصیرتی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے یزید جیسا فاسد،فاسق اور مجرم حاکم بنا رہا اور وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ اسلام اور اسلامی اقدار کوختم کرنے میں مصروف رہا۔ اسوقت حجت خدا اور رسول اللہ کے حقیقی جانشیں اسلام کو بچانے اور مسلمانوں کو بیدار کرنے کی خاطر اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں نہایت ہی اخلاص کے ساتھ قربان کر دیتے ہیں اور اس لازوال قربانی کاتسلسل عزاداری سید الشہداء ہے یعنی جو اہداف امام عالی مقامؑ کے الہی قیام کے تھے وہی اہداف عزاداری کے بھی ہیں ۔بس اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے شعور ،بصیرت اور بیدار ہونے کی ضرورت ہے
انسان کو بیدار ہوتولینے دو
ہرقسم پکارے گی ہمارے ہیں حسین ۔
*[1] – حجۃ الاسلام والمسلمین فدا علی حلیمی حوزہ علمیہ قم کے فارغ التحصیل ہیں۔ فقہ، اصول اور کلام اسلامی آپ کا تخصص ہیں۔ ایک عرصے سے آپ ادبیات عرب، فقہ، عقائد اور فرق و مذاہب کی تدریس کر رہے ہیں۔ حجۃ الاسلام والمسلمین فدا علی حلیمی موسسہ باقر العلوم قم المقدس کے مدیر/ڈائریکٹر اور الباقر مرکز مطالعات و تحقیقات اسلام آباد کے گروہ تحقیق کے فاضل رکن ہیں۔
– ابن حجر،صواعق محرقہ /۱۳۶،دینوری،الامامۃ والسیاسہ /۲۵۸،تاریخ طبری ج4/94. [2]
-وحید الزمان، انواراللغة/134، تفتازانی،شرح عقائد نسفیة/151.[4]
-تذکرة الخواص/148،صواعق المحرقة/222،طبری ج4/358.[5]
-جلال الدین سیو طی،تاریخ الخلفاء/209،صواعق المحرقة/134.[7]
-الاصابة فی معرفة الصحابة ج6/147،تاریخ الخلفاء/209.[8]
– تفسیر مظہری :ج۸/۴۳۴، شرح فقہ اکبر /۸۷، حاشیہ ہدیہ المہدی / ۹۸، تفسیر معارف القرآن ج۸/۴۳[24]
-فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت/70.[25]
-طبری ج6/199،237،ارشاد/185.[31]
-طبری،6/245و ارشاد مفید/257[35]