
وطن عزیز کو کئی ایک چیلنجز درپیش ہیں جن میں سے ایک شدت پسندی ہے۔ شدت پسندی ، عدم برداشت، ایکدوسرے کی نفی اور تخریب کے بڑھتے ہوئے رجحان نے معاشرتی اقدار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ شدت پسندی کے محرکات کیا ہیں اور ان کا تدارک کیسے ممکن ہے ؟۔ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس پر غور و خوض وقت کی ضرورت ہے۔
جون کے ابتدائی ایام عالم اسلام کے عظیم فرزند حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینیؒ کی برسی کے ایام بھی ہیں۔ حضرت امام خمینیؒ کی تحریک کی جہاں دیگر بہت سی خصوصیات ہیں وہیں عدم تشدد کے عنصر کی بدولت امام خمینیؒ کی تحریک اور فکری نظام کو دوسروں سے ممتاز مقام حاصل ہے۔
انقلاب کی جو تعریف دانشوروں نے کی ہے اس میں خون خرابہ کو ایک لازمی عنصر گردانا جاتا ہے لیکن حضرت امام خمینیؒ کی تحریکِ انقلاب کی یہ انفرادیت اپنی جگہ قائم ہے کہ ان کی تحریک کے دوران خون خرابہ نہ ہونے کے برابر ہوا ۔ امام خمینیؒ کی تحریک انقلاب ایک غیر مسلح اور پرامن تحریک تھی۔ امام خمینیؒ کی تحریک انقلاب اور ان کے فکری نظام میں عدم تشدد کا جو عنصر تھا وہ معاصر معاشروں کے لیے بہت رہنما حیثیت رکھتا اور شدت پسندی و عدم برداشت کے شکار کئی ایک معاشروں کےلیے نمونہ عمل بن سکتا ہے۔
بنا بر این الباقر مرکز مطالعات نے 05 جون 2022 بروز اتوار تشدد و عدم برداشت کی وجوہات، اسباب اور تدارک امام خمینیؒ کی فکر و عمل میں، کے زیر عنوان ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا جس میں اہلِ علم و دانش نے شرکت کی۔
مذاکرے میں زیر غور لائے گئے سوالات:
1-امام خمینی ؒ کی نظر میں شدت پسندی اور عدم برداشت کے عوامل و اسباب کیا ہیں؟
2-سیاسی و مذہبی مخالفین کے ساتھ برتاو کی امام خمینی ؒ کی روش؟
3-شدت پسندی اور عدم برداشت کے تدارک کے لیے امام خمینی کی فکری و عملی روش؟
عوامل و اسباب:
1- امام خمینیؒ کے فکری نظام میں شدت پسندی سمیت تمام رذائل کی جڑ عدم تربیت ہے۔ امام خمینیؒ کی فکر میں تربیت ایک جوہری مسئلہ ہے۔ لہذا تشدد کی پہلی وجہ تربیت کا فقدان ہے۔ تربیت ایک مکمل روحانی سائنس ہے۔ اس سائنس میں چار منزلیں متصور ہیں۔ پہلی منزل ِ انسان، دوسری منزلِ ایمان، تیسری منزلِ تقویٰ اور چوتھی منزلِ اعمال صالح ہیں۔ انسان جب منزلِ تقوی کو کراس کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو اہل ِہدایت میں سے قرار دیتا اور نجات عطا کرتا ہے۔تربیت ایک مکمل نظام ہے۔ اگر انسان تقوی اختیار نہیں کرتا، اپنا تزکیہ نہیں کرتا تو اس کا اپنا عمل اسے ہلاک کر دیتا ہے۔
اگر معاشرے کی تربیت نہیں ہوگی تو انسانوں کو خود پر کنٹرول نہیں ہوگا۔ قوت غضبیہ انسانوں پر غالب آئے گی اور اس طرح کی برائیاں جنم لیں گیں ۔ امام خمینی ؒ کے فکری نظام میں خواہشاتِ نفسانی کی پیروی انسان کو ہلاکت اور تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد جب حزب جمہوری اسلامی کے دفتر پر حملہ ہوا اور شہید بہشتی سمیت پہلے درجے کی سیاسی قیادت شہید ہوگئی تو امام خمینیؒ نے ایک تقریر کے دوران فرمایا:
"عدلیہ اور جیل خانہ جات کے عہدیداران توجہ کریں کہ یہ افسوس ناک واقعہ ان کو غضب ناک نہ کردے اور وہ خدانخواستہ پکڑے گئے ملزموں اور قیدیوں پر تشدد کریں یا اسلامی اصولوں کا خیال نہ رکھیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ ملزموں کے کیسز کی انتہائی احتیاط کے ساتھ تحقیق کی جائے، ثبوت اور شواہد اکھٹے کئے جائیں اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں حسب ضابطہ ان کو قانون میں درج سزائیں دی جائیں۔” امام خمینیؒ نےمزید فرمایا: "اس افسوس ناک واقعہ کا عدلیہ کے قضات اور جیل خانہ جات کے افسروں پر کوئی اثر نہیں ہونا چاہئے انہیں حسب قانون عمل کرنا چاہئے۔ ذاتی خواہشات اور احساسات کو خود پر غالب نہ آنے دیں۔ اللہ تعالی ہمیں خواہشات نفسانی سے بچائے۔”
2- امام خمینیؒ کے فکری نظام میں شدت پسندی کی ایک اور وجہ منطق کا فقدان ہے۔ جب انسان کے پاس منطق نہیں ہوتی تو وہ تشدد کی راہ اختیار کرتا ہے۔ امام خمینیؒ کی تحریک کے دوران جب کبھی بھی امام خمینیؒ سے مخالفین کے خلاف سخت کاروائیوں کے جواز کی لیے بات کی گئی تو امام خمینیؒ نے ہمیشہ یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اس کا یہ مطلب ہے کہ انقلابیوں
کے پاس منطق نہیں ہے۔ ان کے پاس اپنے موقف کے دفاع کے لیے دلیل اور برہان نہیں ہے۔
3- امام خمینی ؒ کی نظر میں پر تشدد رویے جواب میں بھی پرتشدد رویوں کو جنم دیتے ہیں۔ تحریکِ انقلاب کے آخری دنوں میں جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی تحریک میں تشدد کا عنصر نظر آرہا ہے تو انہوں نے کہا اس تشدد کا آغاز شاہ کی رجیم نے کیا ہے لوگ پر امن تھے لیکن جب رجیم کی طرف سے تشدد کا آغاز ہوا تو لوگوں نے کہیں جواب دیا ہے۔
4- ہمارے معاشرے میں سیاسی/ جمہوری ادارے تو ہیں لیکن جمہوری/سیاسی روایات کا فقدان ہے۔ برداشت، رواداری اور صبر و تحمل کا تعلق جمہوری/سیاسی روایات ہے سے ہے جس کا ہمارے معاشرے میں فقدان ہے۔ سیاسی جماعتیں روایات سے عاری ہیں۔ بنا بر ایں سیاسی و مذہبی کارکن بھی سیاسی و مذہبی طور پر سرگرم تو ہے لیکن روایات اور اقدار اس میں نہیں ہیں جس کیوجہ سے ان کے درمیان شدت پسندی اور عدم برداشت کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔ لہذا وہ مخالف کو برداشت نہیں کرتے اور ان کی تخریب و نفی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
5- عدم برداشت اور شدت پسندی کے بارے ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ اسے معاشرہ خود سکھا رہا ہوتا ہے۔ سیاسی ادارے، تعلیمی ادارے حتی گھر کا ماحول شدت پسندی کی غیر محسوس تعلیم دے رہا ہوتا ہے۔ والدین اور بچوں، استاد اور طالب علم اور سیاسی رہنما اور سیاسی کارکن کے درمیان رشتہ مہربانی، محبت، باہمی احترام، روداری اور برداشت کا نہیں ہے جس کیوجہ سے متشدد رویے جنم لیتے ہیں۔
6- امام خمینیؒ نے حوزہ ہائے علمیہ (مدارس دینیہ) اور جامعات کی وحدت کی بات کی جس کا مقصد یہ تھا کہ جب دونوں علمی مراکز کے لوگ ایکدوسرے کے قریب ہوں گے تو دینی و اخلاقی تربیت کے حوالے سے جو کمی جامعات کے لوگوں میں رہ گئی ہوگی اسے اہل مدارس پوری کریں گے اور عصری علوم و روش کے اعتبار سے جو کمی اہل مدارس میں رہ گئی ہوگی اسے اہل جامعہ پوری کردیں گے۔ دونوں مراکز کے لوگ ایکدوسرے کی شخصیت کی تکمیل کریں گے۔ اس تربیت کے نتیجے میں نہ مدارس سے شدت پسندانہ رویے جنم لیں گے نہ جامعہ میں نفی و تردیدِ مطلق کو جگہ ملے گی ۔ جب یہ نہ ہوسکا تو شدت پسندانہ رویوں نے جنم لیا۔
7- امام خمینیؒ نے گوربا چوف کو جو خط لکھا اس میں تربیت پر خصوصی توجہ دی اور لکھا کہ ہم تمہارے لوگوں کی اخلاقی تربیت کرنے کے لیے آمادہ ہیں یعنی امام خمینیؒ تربیت کے فقدان کو شدت پسندی اور دیگر برائیوں کی بنیادی وجہ سمجھتے تھے۔ تعلیم یافتہ طبقہ میں تربیت کے فقدان نے شدت پسندانہ سوچ اور رجحانات کو جنم دیا ہے ۔
8- تشدد کی ایک اور بنیادی وجہ جہالت یا عدم شناخت ہے۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں انسان جس چیز کی شناخت نہیں رکھتا اس کا دشمن ہوتا ہے۔ عدم شناخت کا بحران شدت پسندی کو جنم دیتا ہے۔ اپنی شناخت نہ ہونا، دوسرے انسانوں کی شناخت، افکار کی شناخت، انسانی قدروں کی شناخت کا نہ ہونا، دوسروں کے حقوق کی شناخت نہ ہونا انسان کو انسان کا دشمن اور تشدد و نفی و تخریب کی روش پر ڈال دیتا ہے۔
امام خمینیؒ کی عملی روش:
امام خمینیؒ کی زندگی کے دو ادوار ہیں۔ ایک دور اِن کا تحریک انقلاب کے آغاز سے قبل کا ہے اور ایک دور تحریکِ انقلاب اور پھر انقلاب کی کامیابی کے بعد حکومت کا دور ہے۔ کسی بھی دور میں کسی بھی موقع پر نہیں ملتا کہ امام خمینیؒ نے شدت پسندی کا کوئی تاثر دیا یا تشدد کی راہ اختیار کی ہو۔ تحریکِ انقلاب سے قبل امام نے حکومت کے خلاف یا حق میں کبھی کسی جلوس میں شرکت نہیں کی۔ مثلا انقلاب کی تحریک شروع ہونے سے قبل ایک دفعہ قم میں ایک سینما کھلا جس کے خلاف علما نے جلوس نکالا لیکن امام خمینیؒ نے اس میں شرکت نہیں کی۔ امام خمینیؒ نے جس چیز پر آواز اٹھائی وہ ملکی مفاد اور قومی وقا ر کے خلاف قانون سازی تھی جس کے تحت ایران میں جرم کے مرتکب ہونے والے امریکی شہریوں کو ایران میں ٹرائل سے استثناء دی گئی تھی کہ ان کا ٹرائل امریکہ میں ہوگا۔ اس تحریک کے نیتجے میں امام خمینیؒ کو پہلے گرفتار تو بعد میں ملک بدر کر دیا گیا لیکن اس دوران امام خمینیؒ نے لوگوں کوکسی قسم کے تشدد پر نہیں اکسایا بلکہ خاموشی سے عراق چلے گئے۔ عراق گئے تو وہاں صدام کی حکومت تھی امام وہاں جا کر درس و تدریس میں مشغول ہوگئے۔ امام خمینیؒ کے بیٹے مصطفیٰ خمینیؒ کو مشکوک انداز میں قتل کیا گیا تو ایران میں تحریکِ انقلاب نے زور پکڑا لیکن اس دوران بھی امام خمینیؒ کی طرف سے کسی کو تشدد پر اکسانے یا کسی کی نفی و تخریب کی کوئی شہادت نہیں ملتی۔
فرانس میں جب امام خمینیؒ تھے تو وہ ذبیحہ والا مشہور واقعہ کہ امام خمینیؒ اپنے ساتھیوں سے ناراض ہوئے کہ جب فرانس کے قانون میں گھر میں ذبح کرنا منع ہے تو آپ لوگوں نے گھر میں جانور ذبح کیوں کیا ہے یہ قانون گریزی ہے جس سے شدت پسندی کی طرف راہ نکلتی ہے۔
امام خمینیؒ جب واپس ایران آنے لگے تو انہیں بتایا گیا کہ شاہ کی رجیم نے تہران ائر پورٹ بند کر دیا ہے امام خمینیؒ نے کہا کوئی بات نہیں جب کھلے گا تو تب چلے جائیں گے یعنی وہاں بھی جب امام خمینیؒ اپنی مقبولیت کے عروج کے زمانے پر تھے کسی کو تشدد پر نہیں اکسایا بلکہ تحریک کو حتی الامکان پرامن رکھا۔
جب انقلاب کامیاب ہوگیا تو بعض شہروں سے عوامی املاک کی لوٹ مار کی خبریں ملیں۔ امام خمینیؒ نے ایک تقریر میں کہا عوام کی جان مال اور عزت پر تجاوز حرام ہے چاہے کسی کا تعلق انقلاب مخالف کسی گروہ سے ہی کیوں نہ ہو۔ نوجوان آگے بڑھیں اور اس شدت پسندوں کا راستہ روکیں۔
آبادان میں ایک سینما میں بمب دھماکہ ہوا تو امام خمینیؒ نے سب سے پہلے اس کی مذمت کی اور کہا ہماری روش دعوت و تبلیغ کی ہے ہم کسی پر جبر کے ساتھ اپنی سوچ مسلط کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔
جہاں تک بات برداشت کی تو امام خمینیؒ نے انقلاب مخالف عناصر کو بھی حتی الامکان حد تک برداشت کیا۔ انقلاب کی کامیابی اور امام خمینیؒ کی مقبولیت کے عروج کے دور میں امام خمینیؒ کے ایک اشارے پر عوام سب کچھ ملیا میٹ کرنے کے لیے تیار تھی امام خمینیؒ نے بلاا ستثنا سب کی جان مال اور عزت کے تحفظ کی تاکید کی اور اس دوران انقلاب مخالف حلقوں کے 250 سے زائد اخبارات، جرائد اور نشریات بغیر کسی روک ٹوک کے ایران کے مختلف شہروں سے شائع ہوتی تھیں۔ آزادی اظہار خیال پر کوئی قدغن نہیں تھی تا وقتیکہ انقلاب مخالف عناصر نے انقلاب کے خلاف اسلحہ نہیں اٹھا لیا۔
امام خمینیؒ کی شخصیت انتہائی متوازن شخصیت تھی۔ جہاں مصصم عزم کی ضرورت ہوتی وہاں بھی ڈٹ جاتے۔ آیت اللہ منتظری کے داماد کے بھائی نے انقلاب مخالفین کو کچلنے کے لیے فرا عدالت چند قتل کروائے اور جب امام خمینی ؒ کو معلوم ہوا تو انہوں نے شدید مذمت کی اور قانون کے مطابق تحقیقات کی تاکید کی۔ مہدی ہاشمی کو سزائے موت ہوگئی۔ اس واقعہ میں آیت اللہ منتظری جو نائب ولی فقیہ تھے انہوں نے مہدی ہاشمی کی طرفداری کرنا چاہی جس کی وجہ سے امام خمینیؒ نے انہیں اپنی جانشینی سے عزل کردیا لیکن قانون اور اصول پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ حالانکہ ایسی تحریکوں کی ابتدا میں مخالفین کو ہر جائز و ناجائز ذریعے سے کچلنے کی روش کسی نا کسی شکل میں انقلابات میں رہی ہے لیکن امام خمینیؒ نے اس طرح مخالفین کو کچلنے کی روش کی شدید مخالفت کی۔
ایران واپسی پر امام خمینیؒ ائرپورٹ سے سیدھا بہشت زہرا گئے اور وہاں ایک بیس منٹ کی تقریر کی یہ تقریر انقلاب کا بنیادی ترین منشور ہے۔ اس پوری تقریر میں کسی جگہ تشدد پر اکسانے یا تشدد کا راستہ اختیار کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ عوام حتی مخالفین کے ساتھ مدارا اور درگزر کی روش دیکھنے کو ملتی ہے۔
امام خمینیؒ کے نزدیک درست ہے طرز حکمرانی کے تعین کا حق عوام کو ہے کہ وہ اللہ تعالی کے دئیے ہوئے اختیارات کی روشنی میں اپنے لیے ایک نظام کا انتخاب کریں اور پھر اس نظام کوچلانے کے لیے حکمران منتخب کریں لیکن عوام اپنا یہ حق تشدد کے ذریعے، جبر کے ذریعے یا کسی زور زبردستی سے نہیں لے سکتے بلکہ اس کے لیے دعوت و تبلیغ اور پرامن احتجاج کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ امام خمینیؒ کے نزدیک ہر ریاست کا آئین پچاس سال بعد تبدیل ہونا اور اس نسل کو جو اس وقت زمام امور جس کے ہاتھ میں ہو اس کا نئے آئین پر اتفاق رائے ہونا ضروری ہے۔ یہ عنصر بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ امام خمینیؒ جبر سے کچھ بھی نافذ نہیں رکھنا چاہتے تھے۔امام خمینیؒ اپنی تحریک کی کامیابی کے فورا بعد عوام کے پاس گئے اور انتخابات کا راستہ لیا اپنی طرف سے کوئی چیز مسلط نہیں کی اور عدم تشدد اور لوگوں کے ساتھ مدارا اور درگزر کو آئین کا حصہ بنایا۔ امام خمینیؒ کی پوری تحریک کی بنیاد مدارا اور درگزر، برداشت اور رواداری پر ہے۔
تدارک:
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ پہنچتے ہی دو کام کیے۔ ایک مسجد نبوی کی بنیاد رکھی دوسرا حکومت تشکیل دی۔ یہ دو اقدامات معاشرہ سازی کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بہترین حکمت عملی تھی۔ امام خمینیؒ نے بھی انہی دو اصولوں کو سامنے رکھا۔ یعنی سب سے پہلے مسجد کو آباد کیا اور موثر بنایا اور اس کو درست جہت دی۔ ہمارے ہاں بعض مساجد غیر محسوس طریقے سے استعمار کے قبضے میں ہیں۔ ٹرسٹیز، انجمنوں کے صدور وغیرہ وغیرہ کے ذریعے بعض مساجد قبضے میں ہیں لہذا مساجد معاشرہ سازی کا فریضہ انجام دینے سے قاصر ہیں۔ انگریز نے جنگ آزادی کے بعد جب سروے کیا کہ کیا وجہ ہے مسلمانوں میں حریت کا جذبہ ماند نہیں پڑ رہا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ جذبہ ان کو مساجد سے ملتا ہے جہاں ہر مسلمان دن میں پانچ دفعہ جاتا ہے لہذا انہوں ٹرسٹ کے قوانین بنائے جن کے ذریعے مساجد کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ اگر معاشرے سے شدت پسندی اور دیگر برائیاں ختم کرنی ہیں تو مساجد کی افادیت میں اضافہ کرنا اور مساجد کو علم و معنویت کا مرکز بنانا پڑے گا۔امام خمینیؒ کی نظر میں مسجد کی پانچ خصوصیات ہیں: عبادت گاہ، تربیت گاہ، سماجی مرکزاور سیاسی مرکز۔ ہمارے ہاں اکثر مساجد ان خصوصیات سے عاری ہیں۔ جو تین چیزیں بروز محشر اللہ تعالی سے انسان کے بارے شکوہ کریں گیں ان میں سے ایک علاقے کی مسجد ہوگی۔ یہ بات اسلام کے نظام تربیت میں مسجد کی اہمیت ظاہر کرتی ہے لہذا شدت پسندی کو مسجد کے ذریعے کنٹرول کرنا ہوگا۔ جب تک تربیت کا نظام درست نہیں ہوگا اس وقت تک شدت پسندی سمیت تمام اس طرح کے مسائل کا حل نہیں نکلے گا۔
جمہوری نظام میں دو بنیادی عناصر زیادہ اہم ہیں۔ ایک طرف جمہوری ادارے اور دوسری طرف جمہوری اقدار اور اصول۔ جمہوری معاشروں میں میں جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ برداشت جیسی اقدار ہیں۔ کہا جاتا ہے اپنے بدترین مخالف کی بات کو بھی برداشت کریں۔ برداشت جیسی اقدار اور انسانی حقوق ایک زندہ جمہوری نظام میں پہلی ترجیح ہیں۔ ہمارے معاشرے میں جمہوریت ہے لیکن اس کا ایک ستون غائب ہے۔ یہاں جمہوری اقدار اور جمہوری اصول ناپید ہیں۔ لہذا ہماری نظریاتی جماعتیں بھی اس نظام میں شامل ہوکر کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں دے سکتیں کیونکہ ہمارے جمہوری نظام کا ایک ستون ہے ہی نہیں۔ اسی وجہ سے نظریاتی جماعتو اور دوسروں کے درمیان سیاست میں آکر فرق بھی ختم ہوجاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں اقلیت پر اکثریت کی حکومت سے جمہوریت مراد لی جاتی ہے جبکہ اصل جمہوریت سے مراد اکثریت کی حکومت لیکن اقلیت کی consentکے ساتھ ہے ۔ لہذا شدت پسندی کے کلچر کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جمہوریت کا دوسرا ستون بھی کھڑا کیا جائے یعنی جمہوری اقدار اور اصول بحال ہوں۔ جمہوری ادارے جمہوری قدروں کی داغ بیل ڈالیں۔ البتہ برداشت کے عنوان سے ہر نظام فکر کی چند ریڈ لائنز ہوتی ہیں ان پر برداشت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا لیکن امام خمینیؒ کی نظر میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان ریڈ لائنز کا تعین ہر معاشرے پر حاکم قانون کرتا ہے۔ ریڈ لائنز بھی قانون کے دائرے کے اندر قابل فہم ہیں۔
امام خمینیؒ کی زندگی میں کئی مواقع ایسے آئے ہیں جہاں انہوں نے عوام کے از خود فیصلوں اور عوامی عدالتیں لگانے کی مخالفت کی اور مسائل چاہے جتنے بھی پیچیدہ ہوئے عدلیہ کی طرف رجوع کرنے کی تاکید کی اور عدلیہ کو ذاتی پسند ناپسند اورنفسانی خواہشات کی پیروی کی بجائے قانون اور ضابطے پر توجہ مرکوز رکھنے کی تاکید کی۔
ہمیں معاشرے کو یہ تعلیم دینی ہوگی کہ مسائل کی نوعیت جتنی بھی شدید ہو ان کو عدلیہ اور انتظامیہ کی طرف پلٹایا جائے از خود عدالتیں لگانے کے کلچر کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ ہم اس عمل کی خاطر خواہ حوصلہ شکنی نہیں کرتے۔
تعلیمی اور تربیتی نظام میں نوجوانوں کے استحصال اور فکری اور علمی تشدد کی روش بدلنے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ اور مبلغین کی تربیت حتی والدین کی تربیت سے یہ ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے کہ نظام تعلیم و تربیت سے تشدد کا خاتمہ کیا جائے نتیجتا معاشرے سے تشدد کا خاتمہ ہوگا۔
تعلیم یافتہ طبقے کی اخلاقی تربیت اور دینی طبقے میں عصری شعور کا ارتقا بھی شدت پسندی اور عدم برداشت کے کلچر کے خاتمے کا باعث بنے گا۔ امام خمینیؒ کے حوزہ علمیہ (مدارس دینیہ) اور جامعات کی وحدت کے تصور کو اس تناظر میں دیکھنے اور اس پر عمل کی ضرورت ہے اس سے مسئلہ مذکور کے حل میں کافی مدد ملے گی۔
اداروں خصوصا عدلیہ اور حکمرانوں کو اپنا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے ۔ اداروں اور حکمرانوں کا دہرا معیار بھی معاشرے میں شدت پسندی اور عدم برداشت کا بیج بوتا ہے۔ امام خمینیؒ کی اس عنوان سے سیرت عملی نمونہ ہے۔ امام خمینیؒ کے نجف میں جب بیٹے مصطفی خمینی مشکوک حالت میں قتل ہوئے تو لوگوں کو توقع تھی کہ امام معمول سے مختلف رویہ اختیار کریں گے جس سے اندازہ ہوگا کہ امام کے ہاں معیارات کس قسم کے ہیں لیکن امام اپنے بیٹے کے جنازے کے ساتھ بھی وہیں تک چلے جہاں تک عام لوگوں کے جنازے کے ساتھ چلتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا امام کے زندگی کے اصول ایک جیسے تھے۔ ان کے ہاں دہرا معیا ر نہیں تھا۔ ہمارے معاشرے میں بھی خصوصا عدلیہ اور حکمرانوں کو دہرے معیار ترک کرکے عوام کے اعتماد کو بحال کرنا ہوگا۔
قانون پذیری کی تعلیم و تربیت عام ہونی چاہئے۔ امام خمینیؒ کی عملی سیرت اور فکری نظام میں قانون کی پابندی کی بہت زیادہ تاکید نظر آتی ہے۔
منطق، گفتگو، مکالمہ، غصے پر کنٹرول، دوسروں کو برداشت کرنا، مشترک زندگی کے اصولوں کو سیکھنا وغیرہ یہ سب سکول کی بارہ سالہ تعلیم کے دوران بچوں کو سکھائے جانے چاہئے۔ اس مرحلے پر والدین، اساتذہ اور حکومت کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے۔