دین مبین اسلام صرف چند انفرادی احکام کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں انسانی زندگی کے تمام پہلووں کے رہنما اصول بیان کیے گئے ہیں۔ دین مبین اسلام کے احکام کا مجموعہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعوت و تبلیغ اور وعظ و نصیحت کے ذریعے لوگوں کی عقیدتی بنیادیں مضبوط کرنے کے بعد سب سے پہلے جو اقدام کیا وہ مدینہ منورہ میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کا اقدام تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھی جو اپنی خصوصیات میں بے نظیر ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدینہ میں دس سالہ حکومت بلامغالغہ پوری تاریخ بشریت کی درخشاں ترین حکومت ہے۔ تاریخ بشریت کی اس مختصر لیکن کارآمد اور معجزاتی تاثیر رکھنے والے دور کو سمجھنا ضروری ہے۔[1]
موضوع کی اہمیت کے پیشِ نظرحضرت آیت اللہ خامنہ ای کے بیانات کی روشنی میں نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قائم کردہ ریاست مدینہ کی چند بنیادی خصوصیات قارئین کے پیش خدمت ہیں۔
مدنی دور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی 23 سالہ رسالت کا دوسرا باب ہے۔ مکہ کے تیرہ سال اس کا پہلا باب تھا کہ جو دوسرے باب کے لیے مقدمہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان دس سالوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلامی نظام کی داغ بیل ڈالی اور ہر مکان وزمان کے لیے اسلامی حاکمیت کا ایک ایسا کامل نمونہ پیش کیا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ تمام مسلمانوں کو بلکہ تمام انسانوں کو چاہئے کہ اس نمونہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی خصوصیات کو سمجھیں اور پھر ان کی بنیاد پر انسانوں اور نظاموں کے بارے میں فیصلہ کریں۔ مدینہ کی طرف ہجرت سے نبی کریم (ص) کا ہدف یہ تھا کہ سیاسی، معاشی اور سماجی طور سے فاسد، پوری دنیا پر چھائے ہوئے ظالمانہ اور طاغوتی ماحول کا مقابلہ کریں۔ ہدف صرف کفار سے مقابلہ نہیں تھا بلکہ ہدف عالمگیر تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تحریک اس ہدف کے تحت تھی ۔ اسی لیے آپ جہاں بھی زمین ہموار دیکھتے وہاں فکر و عقدے کے بیچ بوتے، اس امید پر کہ اپنے مناسب وقت پر یہ بیج، شجرسایہ دار میں تبدیل ہوجائیں گے۔ ہدف یہ تھا کہ آزادی، بیداری اور انسان کی سعادت کا پیغام ہر ایک دل تک پہنچے اور یہ کام ایک مکمل نمونہ پیش کیے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تاکہ اس خاکہ کو جسم دے سکیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ نمونہ تمام تاریخ بشریت کے سامنے پیش کر دیا۔ اب دوسرے کس حد تک اس کی پیروی کرسکتے ہیں، کس حد تک خود کو اس کے نزدیک کرسکتے ہیں یہ خود ان کی ہمت و صلاحیت پر منحصر ہے۔[2]
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قائم کردہ ریاست مدینہ کی متعدد بنیادی خصوصیات ہیں کہ جن میں سے درج ذیل سات خصوصیات زیادہ نمایاں اور اہم ہیں۔
پہلی خصوصیت: ایمان اور روحانیت
نبوی نظام میں ترقی کا حقیقی عامل وہ ایمان ہے جو لوگوں کے دلوں میں راسخ ہے اور لوگوں کے ہاتھ پیر اور مکمل وجود کو صحیح سمت میں حرکت دیتا ہے۔ پس پہلی خصوصیت لوگوں میں روح، ایمان اوار معنویت پھونکنا اور اس کو مضبوط کرنا ہے۔ لوگوں کو صحیح عقیدہ اور نظریہ دینا ہے۔
دوسری خصوصیت: قسط و عدل
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قائم کردہ ریاست مدینہ کی دوسری خصوصیت قسط و عدل ہے یعنی ہر حال میں صاحبِ حق کو اس کا حق پہنچانا ہے۔
تیسری خصوصیت علم و معرفت
نظام مصطفیٰ میں ہر چیز کی بنیاد علم، شناخت، آگاہی اور بیداری ہے۔ کسی کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اس کو کسی سمت میں حرکت نہیں دی جاسکتی بلکہ لوگوں کو آگاہی، معرفت اور تشخیص کی صلاحیت کے ساتھ فعال عنصر میں تبدیل کیا جاتا ہے نہ کہ ایک منفعل عنصر میں۔
چوتھی خصوصیت محبت اور اخوت
نبی کریم صلی اللہ و آلہ وسلم کی قائم کردہ ریاست مدینہ میں خرافات، ذاتیات اور منفعت طلبی کی بنیاد پر ابھرنے والے تمام جھگڑے اور تنازعات بے معنی ہیں اور ان سے مقابلہ کیا جاتا ہے۔ ماحول پر محبت، اپنائیت، برادری اور ہم دلی کی فضا کا راج ہوتا ہے۔
پانچویں خصوصیت اخلاق اور کردار کی اصلاح
یعنی انسانوں کو تزکیہ کے ذریعہ اخلاقی مفاسد اور رذائل سے پاک کیا جاتا ہے۔ بااخلاق اور پاک افراد پیدا کیے جاتے ہیں: (ویزکیھم و یعلمھم الکتاب و الحکمہ)[3]۔ تزکیہ نظام مصطفیٰ کا بنیادی عنصر اور اساس ہے۔ یعنی نبی کریم (ص) نے ایک ایک فرد پر تربیتی کام کیا اور فردا فردا انسان سازی کی ہے۔
چھٹی خصوصیت اقتدار اور عزت
ریاست مدینہ کا نظام اور معاشرہ مغلوب، طفیلیہ، مقلد اور ادھر ادھر ہاتھ پھیلانے والا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس عزت مند، طاقت ور اور خود مختار نظام ہے۔ ایسا نظام جب اپنے مفاد کی شناخت کرلیتا تو اس کے حصول کے لیے جدوجہد کرتا اور کام کو آگے بڑھاتا ہے۔
ساتویں خصوصیت کام، تحرک اور مسلسل ترقی
ریاست مدینہ میں توقف نہیں ہے۔ تسلسل کے ساتھ کام اور ترقی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کسی وقت کہا جائے اب کام ختم ہوگیا ہے؛ اب بس؛ بیٹھ کر آرام کرتے ہیں! ایسا نہیں ہوتا۔ البتہ یہ کام لذت بخش اور فرحت قلب کا باعث ہے؛ یہ کام تھکا دینے، سست کردینے، افسردہ اور پشیمانی کردینے والا نہیں ہے بلکہ ایسا کام ہے جو انسان کو طاقت، نشاط اور رغبت عطا کرتا ہے۔[4]
[1] ۔ آیت اللہ خامنہ ای، خطبہ جمعہ، 18 مئی 2001، تہران۔
[2] ۔ ایضا
[3] ۔ القرآن، جمعہ/02
[4] ۔ آیت اللہ خامنہ ای، خطبہ جمعہ، 18 مئی 2001 تہران